تابوت سکینہ/عھد کا صندوق

صلاح الدین ایوبی کی قسط میں نمودار ہونے والا عہد کا تابوت
تابوت سکینہ کیا ہے؟ یخودی کیوں یہ تابوت حاصل کرنا چاہتے تھے یا کرنا چاہتے ہیں؟
مکمل تفصیل 👇👇

اگر تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسر۔ا۔ئیل کو اسلامی ممالک سے اپنا وجود تسلیم کروانے کی ایک وجہ تو اپنے ناجائز وجود کو بالآخر مسلم ممالک میں جائز حیثیت دلا کر مسلمانوں سے معاشی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آنے والے وقت کی پیش بندی بھی ہے،
جس کا ذکر قرآن شریف میں اور تورات میں موجود ہے، دوسری طرف مخفی طور پر اس تابوت سکینہ کی تلاش بھی ہے، جس کے ذریعے سے یخودی اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کر کے دنیا بھر میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔

تابوت سکینہ کیا ہے؟
اور اس میں کیا کیا چیزیں تھی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں مسلمانوں کی نئی نسل ناواقف ہے جو کہ تمام مسلمانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بائبل کے مطابق اس میں حضرت یوسف کا جسد مبارک اور بائبل ہی کی بعض روایات کی رو سے ہڈیاں اور کپڑے تھے اور اسے حضرت موسی مصر سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ قصص الانبیاء میں ہے کہ اس متبرک صندوق میں تورات کا اصل نسخہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے عصاء و پیرہن اور من کا مرتبان محفوظ تھے۔

اس تابوت کے بارے میں اللہ سبحانہ و تعالى کا ارشاد گرامی ہے :
سورۃ البقرۃ : 248

اور انہیں ان کے نبی نے کہا کہ اس (طالوت) کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق (تابوت) آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت (ایک تسلی) ہے اور آل موسیٰ و آل ہارون نے جو کچھ چھوڑا تھا اس میں سے باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔
بے شک اس میں تمہارے لیے یقیناً ایک نشانی ہے، اگر تم مومن ہو۔

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ
وہ صندوق اللہ تعالى کی طرف سے طالوت کے بادشاہ مقرر ہونے کی نشانی تھا۔
اللہ تعالى کی طرف سے ایک تسلی تھی۔
اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کی آل ترکہ کی باقی ماندہ اشیاء تھیں

حضرتِ سیّدُنا آدم عَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے دنیا میں تشریف لانے کے بعد اللہ عَزّوجَلّ نے اُنہیں شَمْشاد نامی درخت کی مضبوط لکڑی سے بنا ہوا اور سونے کا کام کیا ہوا 3 گز لمبا اور 2 گز چوڑا ایک ”انوکھا صندوق“ عطا فرمایا جو کہ منتقل ہوتا ہوا حضرتِ سیّدُنا موسیٰ عَلَیْہ السَّلام تک پہنچا۔
(ان سب کے بارے میں اللہ بہتر جانتا ہے )

حضرتِ سیّدُنا آدم عَلَیْہ السَّلام کو جب صندوق ملا تو اُس میں تمام انبیائے کِرام عَلَیھِمُ السَّلام اور اُن کے مکانات کی نشاندھی تھیں سَیّدُ الاَنبیا (حضرتِ محمد مصطفے ٰ) صلَّی اللہ علیہ و آٰلہٖ و سلَّم اور آپ کے مُقدَّس مکان کی نشاندھی ایک سرخ یاقوت (یعنی لال قیمتی پتّھر) میں تھی۔ اُس سرخ یاقوت میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ و آٰلہٖ وسلَّم نماز کی حالت میں تھے جبکہ آس پاس صحابۂ کِرام عَلَیھِمُ الرّضْوان موجود تھے۔ یہ نشاندھی قُدرتی تھیں۔ انسان کی بنائی ہوئی نہ تھیں۔ جب حضرتِ موسیٰ عَلَیْہ السَّلام کو یہ صندوق ملا تو آپ اُس میں اپنا خاص سامان رکھنے لگے۔ اس کے علاوہ صندوق میں، توریت شریف کی تختیوں کے ٹکڑے، جنّتی لاٹھی، حضرت موسیٰ عَلَیْہ السَّلام کا لباس اور حضرت ہارون عَلَیْہ السَّلام کا عِمامہ اور اُن کی لاٹھی حضرت سلیمان عَلَیْہ السَّلام کی انگوٹھی اور بنی اسر۔ا۔ئیل پر نازل ہونے والا وہ برتن بھی تھا، جس میں آسمانوں سے من و سلویٰ اترا کرتا تھا۔

حضرت موسیٰ عَلَیْہ السَّلام جنگ میں اِس صندوق کو آگے رکھتے تھے، اِس سے بنی اسر۔ا۔ئیل کو سُکون نصیب ہوتا تھا بنی اسرائیل کو جب کوئی مشکل پیش آتی تو وہ اِس صندوق کو سامنے رکھ کر دُعا کرتے تھے دُشمنوں کے مقابلے میں اِس کی بَرَکت سے فتح پاتے تھے، جب آپس میں اِختِلاف ہوتا تو صندوق سے فیصلہ کرواتے، صندوق سے فیصلے کی آواز آتی تھی، بلائیں اور آفتیں صندوق کی برکت سے ٹل جاتی تھیں۔
اسر۔ا۔ئیلی تابوت سکینہ کو اپنے قبلہ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام نے تابوت سکینہ کے تحفظ کے لئے ایک مضبوط عمارت تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ عمارت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں مکمل ہوئی اور اسے ہیکلِ سلیمانی کا نام دیا گیا۔ جب بنی اسرائیل اللہ عَزّوجَلّ کی بہت زیادہ نافرمانی کرنے لگے تو اُن پر یہ غَضَب ہوا کہ قومِ عَمَالِقہ کے بہت بڑے لشکر نے حملہ کر کے اُن کی بستیاں تباہ کر ڈالیں اور یہ انوکھا صندوق بھی اُٹھا لے گئے۔ اِس کے بعد قومِ عمالِقہ نے صندوق کو گندی جگہ رکھ کر بے اَدَبی کی، جس کے نتیجے میں وہ مختلف بیماریوں کا شِکار ہو گئے اور اُن کی 5 بستیاں ہلاک ہو گئیں، اُنہیں یقین ہو گیا کہ یہ سب مُقَدَّس صندوق کی بے اَدَبی کا نتیجہ ہے، چنانچہ اُنہوں نے صندوق ایک بیل گاڑی پر رکھ کر بنی اسر۔ا۔ئیل کی بستیوں کی طرف چھوڑ دیا۔

وہ صندوق چار فرشتوں کی نگرانی میں اُس وقت کے نبی حضرت شَمْوِیل عَلَیْہ السَّلام تک پہنچا، یوں بنی اسر۔ا۔ئیل کو دوبارہ یہ عظیم نعمت حاصل ہو گئی۔ اس واقعے کے بعد بنی اسر۔ا۔ئیل نے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا۔ بعد ازاں رومیوں نے حملہ کیا اور اسے ایک بار پھر نشانہ بنایا۔ بعض تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ اہل بابل اسے اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسے آسمانوں پر اٹھالیا گیا۔ جب کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیامت کے قریب حضرت اِمام مَہْدی جب تشریف لائیں گے تو وہ اس صندوق کو فلس طین کی ”طَبَرِیَّہ“ نام کی ایک مشہور جھیل سے نکالیں گے۔ جبکہ ایک قول کے مطابق آپ اُسے تُرکی کے شہر اَنْطاکیہ کی کسی غار سے نکالیں گے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سرزمین کو فتح کیا تو رومیوں کے کلیسا سے کچھ فاصلے پر دعا فرمائی، جہاں مسجد اق صیٰ کی تعمیر کی گئی۔

یخودی دعویٰ کرتے ہیں کہ جس جگہ مسجد اق صیٰ واقع ہے وہاں ان کا معبد تھا۔ مسلمان اس جگہ کو اپنے لئے مقدس جانتے ہیں، مگر یخودیوں کا عقیدہ ہے کہ مسجد کو شہید کر کے اس کی جگہ ہیکلِ سلیمانی کی دوبارہ تعمیر کی جائے گی۔ وہ ہیکل کی ایک پس ماندہ دیوار میں واقع دروازے کے متعلق بھی سمجھتے ہیں کہ یہ قیامت سے قبل ان کے بادشاہ کی واپسی کا راستہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اس دروازے سے ان کا بادشاہ نکلے گا تو اس کے پیچھے تمام مردے اٹھ کھڑے ہوں گے، البتہ مسلم روایات کے مطابق یخودیوں کا بادشاہ دجال ہے۔

Scan the code
Open Chat

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Contact Us